علم کے حاصل کرنے اور سیکھنے کی فضیلت کو قرآن مجید اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احادیث میں بڑے عزت و احترام سے پیش کیا گیا ہے۔ قرآن میں بھی اللہ تعالی کی بارگاہ میں علم حاصل کرنے کی حثیت میں اہم آیات آئی ہیں۔
علم کی فضیلت کا اہم حصہ یہ ہے کہ یہ انسان کو ایک بہترین انسان بنانے کی راہوں کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ علم کے ذریعے انسان سمجھتا ہے کہ کس طرح اخلاقی اصولوں کا پاسدار بننا، اپنی جمعی اور فردی ذمہ داریوں کو انجام دینا، اور دنیا اور آخرت کی کامیابی کی راہوں کو دیکھنا ممکن ہوتا ہے۔
علم کی فضیلت کا مطالعہ انسان کی شخصی ترقی اور معاشرتی ترقی کے لحاظ سے بھی اہم ہے، اور اس سے انسانیت کو ایک بہترین طریقہ سے خدا کی رضا حاصل ہوتی ہے۔
علم کی فضیلت پر واقعات
علم کی فضیلت کے بارے میں ایک مشہور واقعہ ایک طالب علم تھا کسی زمانے میں مسلمانوں کا بڑا مرکز رہا ہے کرتبہ امام قرطبی رحمت اللہ علیہ وہیں کے تھے تو وہاں پہ ایک طالب علم تھا اس کا نام تھا بقی الدین ابن مخلد رحمۃ اللہ یہ واقعہ امام زاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب سیر اعلام النبلا میں لکھا ہے
اپ خود بھی پڑھ سکتے ہیں تو وہ بقی الدین ابن مخلد رحمۃ اللہ اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ مجھے پتہ چلا کہ بغداد میں امام احمد بن حنبل بڑے فقیہ ہیں اور محدث ہیں اور وہ علم کا ایسا سمندر ہیں کہ جو طالب علم جاتا ہے وہ علم سے اپنی پیاس بچھاتا ہے
تو میرے دل میں شوق پیدا ہوا کہ میں بھی جاؤں اور ان سے علم حاصل کروں اس کے لیے میں اپنے گھر سے ایک گٹھلی میں سامان لے کے نکلا اور میں نے ایک کشتی کی رائے پہ لی کیونکہ راستے میں سمندر پڑھتا تھا وہ کہتے ہیں کہ ہم کشتی میں چلے اور کشتی والا راستہ بھول گیا
اور سمندر سمندر ہر طرف سمندر ہم طوفان میں گر گئے اور طوفان میں تو پھر 12.15 فٹ ہوئی تھی لہریں اتی ہیں اور کشتی جو ہے وہ ہیکولے کھاتی رہتی ہے کہتے ہیں کہ کشتی کولے کھاتی تھی اور ہمیں الٹیاں اتی تھی اور ہماری طبیعت خراب اور ایسے لگتا تھا
کہ ہم شاید خشک زمین کو دوبارہ نہیں دیکھ سکیں گے کشتی پانی میں ہی ڈوب جائے گی بڑے دنوں کے بعد بالاخر اللہ نے ہم پر مہربانی کی اور کشتی کنارے پر لگی ہم نیچے اترے میں نے پوچھا لوگوں سے کہ بھئی بغداد کہاں ہے ان کا جناب وہ تو سات اٹھ سو میل دور فلاں جگہ پہ شہر ہے تو بکیل دین کہتے ہیں
کہ میں نے اپنی گٹھڑی اپنے سر پہ رکھی اور پیدل چلنا شروع کر دیا کہ یہ چھ سات سو میل کا سفر تو کوئی اتنی بڑی بات نہیں میں پیدل طے کر لوں گا اب اپ سوچیے کہ علم حاصل کرنے کے لیے 700 کلومیٹر چل کے استاد کے پاس پہنچنا تھا فرماتے ہیں
کہ جب میں بغداد شہر کے قریب پہنچا تو میں اتنا تھکا ہوا تھا اتنا تھکا ہوا تھا ایک درخت کے سائے میں میں نے اپنی گٹھری سر سے اتاری اور میں تو زمین کے اوپر جیسے گر جاتا ہے
کوئی اور گہری نیند کی اغوش میں چلا گیا جب دو چار گھنٹے سونے کے بعد انکھ کھلی تو میں نے پھر ڈپٹی سر پہ اٹھائی اور بغداد شہر کی طرف چلنا شروع کیا راستے میں مجھے ایک بندہ ملا جو بغداد شہر سے ا رہا تھا
میں نے اسے سلام کیا اور میں نے سلام کر کے اس سے پوچھا کہ اپ امام احمد بن حنبل کے بارے میں مجھے کچھ بتا سکتے ہیں سننے کا نوجوان ان کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو میں نے کہا کہ میں تو چلا ہوں
ان سے علم حاصل کرنے کے لیے اس بندے نے ٹھنڈی ساتھ لی اور مجھے کہا کہ اے نوجوان تمہاری یہ تمنا پوری نہیں ہو سکتی میں نے پوچھا کیوں اس نے کہا کہ بادشاہ وقت امام احمد بن حنبل سے کسی بات پہ ناراض ہو گیا ہے
اور اس نے ان کو گھر میں نظر بند کر دیا ہے نہ کوئی بندہ امام صاحب سے مل سکتا ہے نہ امام صاحب کسی بندے سے مل سکتے ہیں لہذا اب تم ان سے علم حاصل نہیں کر سکتے ہیں کہ میرے دل پہ چوٹ تو لگی میں نے ہمت نہیں ا رہی میں چل پڑا کہ اچھا پہنچتا تو ہوں
شہر میں اللہ کوئی صورت نکال دیں گے شہر پہنچ کے ایک چھوٹی سی جگہ تھی وہ میں نے کرائے پہ لے لی اپنا سامان رکھا اور میں نے لوگوں سے پوچھا کہ بھئی شہر میں کہیں کوئی حدیث کا درس ہوتا تو ہوگا نا اتنا بڑا شہر ہے لوگوں نے کہا
جامعہ مسجد میں یحیی بن معین رحمۃ اللہ علیہ ایک محدث تھے جو جڑا اور تعدیل کے امام سمجھے جاتے تھے پہنچ چکے اسماء الرجال کے فن میں امام تھے ماہر تھے ہر راوی کے حالات جانتے تھے تو انہوں نے بتانا شروع کر دیا راوی سکہ ہے فلاں راوی ٹھیک نہیں ہے
فلاں ٹھیک نہیں ہے فلاں ٹھیک نہیں ہے فلاں ٹھیک تو پکی الدین کہتے ہیں کہ جب انہوں نے ایک بندے کو جواب دے دیا نا تو میں اٹھ کے کھڑا ہو گیا اور میں نے ان سے پوچھا جی کہ ہشام ابن عمار کے بارے میں اپ کیا کرنا ہے
انہوں نے جواب دیا وہ ہشام چادر والے میں نے کہا ہاں وہی انہوں نے کہا وہ اتنے سکہ ہیں کہ ان کے چادر کے نیچے تکبر بھی ا جائے تو ان کی ثقاہت میں کوئی فرق نہیں پڑتا تو اس سے حدیث کی روایت کر سکتے ہو کیا
انہوں نے مجھے جواب دیا تو میں نے پھر دوسرا سوال پوچھنا چاہا مگر جو قریب لوگ بیٹھے تھے نا انہوں نے میرا کرتا پکڑ کے کھینچا اور کہا کہ بھئی یہاں کا دستور یہ ہے ایک دن میں ایک طالب علم ایک سوال پوچھ سکتا ہے
اگر ایک ہی سارے سوال پوچھے گا تو باقی طلبہ کا کیا ہوگا اب اپ نے ایک سوال پوچھ لیا بیٹھ جائیں کہتے ہیں کہ میں نے رونا شروع کر دیا اور میں نے ان کو بتایا کہ دیکھو میں تو اتنی دور سے سفر کی مشقتیں اٹھا کے یہاں ایا ہوں اور مجھے اس ترتیب کا پتہ نہیں تھا
اگر پتہ ہوتا تو میں وہی سوال پوچھتا جو مجھے اصل پوچھنا تھا لوگوں نے میرے اوپر ترس کھایا بچہ تم ایک سوال اور پوچھ لو جب انہوں نے کہا نا کہ ایک سوال اور پوچھ لو تو میں نے یحیی بن معین رحمۃ اللہ سے پوچھا اپ امام احمد بن حنبل کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہتے ہیں
کہ اس سوال کو سن کے پورے مجمعے پہ خاموشی طاری ہو گئی سانپ سونگھ گیا پورے مجمے کو لوگ سمجھتے تھے کہ بادشاہ وقت ان سے ناراض ہے اس نے نظربند کیا ہوا ہے
اور مجمعے میں ان کے بارے میں سوال پوچھنا تو اپنے اپ کو عذاب کو دعوت دینے کی ماننے دینا میری بات سن کے یحیی نے اپنا سر جھکا لیا وہ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور ایک ٹھنڈی ساتھ لی اور کہنے لگے کہ امام احمد بن حنبل تو امام المسلمین ہیں
جب یحیی بن معین لفظ نے یہ کہا تھا کہ امام احمد بن حنبل تو امام المسلمین ہیں میرے دل میں اور طلب بڑھ گئی کہ میں نے تو ان سے علم حاصل کر کے ہی رہنا ہے
مجلس ختم ہوئی تو میں نے ساتھ والے ایک بندے سے کہا بھئی مجھے امام ہم نے نمل کا گھر دکھا دو تم نے کہا نہ بھئی نا اگر پولیس کو شک ہو گیا نا تو تمہیں بھی کوڑے لگیں گے اور مجھے بھی لگیں گے میں کیوں اپنے اپ کو تکلیف میں ڈالوں میں نے کہا
یار مجھے اپنے ساتھ لے چلو اور جب امام احمد بن حنبل کے گھر کے قریب سے گزرنا نا تو اپ کے اشارے سے بتا دینا کہ یہ دائیں طرف یا بائیں طرف امام احمد کا گھر ہے میں اس گھر کے دروازے کو پہچان لوں گا پھر میں اپ اگے چلے جانا اس پہ وہ بندہ تیار ہو گیا
اور اسی وجہ امام احمد بن حنبل کے گھر کا دروازہ دکھا دیا اب میں اپنے کمرے میں ایا ساری رات میں سوچتا رہا کہ میں امام احمد بن حنبل سے کیسے علم حاصل کر سکتا ہوں کبھی کوئی ترتیب کوئی کوئی ترتیب مگر ذہن میں یہ بات اتی کہ اگر میں روزانہ جاؤں گا
تو امام صاحب اول تو پڑھائے گے نہیں اور اگر پڑھا بھی دیں گے تو پولیس کو پتہ چل گیا تو پھر میں بھی جیل میں اگلے دن میں صبح اٹھا تو میں نے اپنے گھٹلے کو کپڑے سے باندھ لیا
تاکہ دیکھنے والے کو پتہ چلے کہ کوئی زخم ہے جس کی وجہ سے اس نے گھٹنا باندھا ہوا ہے اور میں نے ایک سائل کی شکل اختیار کر لی ہاتھ میں کٹوری پکڑ لی اور جیسے سوالی سوال کرتا ہوا جا رہا ہوتا ہے
میں نے وہ شکل اپنا لی وہ بیس اپنا لیا اور بازار میں مانگنا شروع کر دیا اب لوگ میری شکل کو دیکھتے تو میں 20 سال کا نوجوان تھا بلکہ کچھ لوگ مجھے حر کے دیکھتے کہ تمہیں شرح نہیں اتی اتنی جوانی میں تم سوال کرتے پھرتے ہو
میں ان لوگوں کی گھوری ہوئی نظروں کو برداشت کرتا ذلت کو برداشت کرتا اور بازار میں مانگتا ہوا چلا جاتا پھر ایسے وقت میں جب لوگوں کے اندر کم ہوتی ہے میں امام احمد بن حنبل کی گلی میں داخل ہوا
اور میں نے یہ امام احمد بن حنبل کے دروازے پہ جا کے بڑی دردناک اواز سے سزا لگائی اجرکم اللہ میری اواز میں اتنا درد تھا کہ امام صاحب سمجھ گئے
کہ یہ بہت کوئی ضرورت مند حاجت مند ہے تو امام صاحب نے اپنے گھر کا دروازہ کھولا اور ان کے ہاتھ میں کچھ پیسے تھے سکے تھے
جو مجھے دینا چاہتے تھے فرماتے ہیں کہ میں امام صاحب کے قریب گیا اور میں نے جا کر کہا کہ حضرت میں مال کا طلبگار نہیں ہوں
میں علم کا طلبگار ہوں اور میں نے تو اپ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے یہ بھکاری کا بھیس اپنایا ہے ورنہ تو میں سنت کا متلاشی ہوں
مجھے اپ روزانہ پڑھا دیا کریں امام احمد ربل نے فرمایا کہ نا بھئی نہ چلے جاؤ یہاں سے اگر پولیس نے دیکھ لیا تو تمہیں بھی سزا ملے گی مجھے بھی سزا ملے گی تو میں نے کہا کہ حضرت میں اس طرح بھکاری کی شکل میں روزانہ ایک وقت اپ کے پاس اؤں گا
اور اپ یہی سکے لے کر دروازہ کھولا کرنا اگر کوئی اور بندہ قریب ہے تو سکے ڈال دینا اور میں چلا جاؤں گا اور اور کوئی بندہ نہیں ہے تو اپ مجھے کھڑے کھڑے ایک دو حدیثیں سنا دینا میں ان کو زبانی یاد کر لیا کروں گا میرا اور اپ کم پڑھنے پڑھانے کا
یہی طریقہ ہے پورا ایک سال میں بغداد کی گلیوں میں بھیک مانگنے کے بہانے امام احمد بن حنبل سے سے چند حدیثیں روزانہ صلح کرتا تھا اور یاد کر لیا کرتا تھا اللہ کی شان دیکھیں ایک سال کے بعد حاکم وقت مر گیا جو نیا حاکم وقت بنا اس کو امام محمد سے عقیدت تھی
اس نے نظربندی بھی ختم کر دی اور امام احمد رنبل کا جو درس حدیث ہوتا تھا نا مسجد میں جامع مسجد میں وہ بھی شروع کروا دیا بلکہ دین کہتے ہیں کہ عصر کے بعد میں جامع مسجد میں گیا تھا کتنا رقص تھا جگہ ہی نہیں ملتی تھی
بڑی کوشش کے باوجود میں امام احمد بن حنبل کے قریب تو نہ پہنچ سکا بس ذرا دور کھڑا ہو گیا تو امام صاحب کی نظر مجھ پر پڑی تو امام صاحب نے مجمے کو کہا اے مجمعے کے لوگوں اس نوجوان کو میرے پاس انے دو علم کا اصل طلبگار تو یہ ہے اب اپ اندازہ لگائیے کیسی طلباء تھے جو علم حاصل کرنے کے لیے بھیک مانگنے کا بیس اپنایا کرتے تھے اور پھر استاد سے پڑھا کرتے تھے
علم کی فضیلت پر قرآنی آیات
قرآن مجید میں علم کی فضیلت پر مخصوص آیات موجود ہیں . کچھ مخصوص آیات مندرجہ ذیل ہیں:
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا فرمایا ہے: “الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ” (سورة المؤمنون، الآية 11) اس آیت میں اللہ کی رضا حاصل کرنے والے لوگوں کو جنت الفردوس کی وارثین کے طور پر ذکر کیا گیا ہے. علم کے ذریعے انسانیت کو بہتر بنانے کا ذریعہ فراہم کیا جاتا ہے جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کی راہ میں اہم ہوتا ہے.
دوسری آیت میں اللہ تعالی کا فرمایا ہے: “يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ” (سورة المجادلة، الآية 11) یہ آیت بیان کرتی ہے کہ اللہ تعالی علم حاصل کرنے والوں کو اعلی درجات دیتا ہے. علم کا حاصل کرنا اور سیکھنا ایک عظیم فضیلت ہے جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کی راہ میں اہم کردار ادا کرتا ہے.
ایک اور آیت میں اللہ تعالی کا فرمایا ہے: “يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ” (سورة التوبة، الآية 119) یہ آیت ایمان والوں سے کہتی ہے کہ وہ سچائی اور راستی کے ساتھ رہیں. علم حاصل کرنے کے لئے صداقت اور سچائی کی بنیاد ہوتی ہے، اور اللہ تعالی ان لوگوں کو اپنی رضا حاصل کرنے والوں میں شامل کرتا ہے.
یہ آیات اور دیگر قرآنی آیات علم کی فضیلت کو اور اس کی اہمیت کو بیان کرتی ہیں، جو انسانوں کو راہ هدایت پر چلنے میں مدد فراہم کرتا ہے اور ان کی شخصی ترقی اور معاشرتی ترقی کو بڑھاتا ہے.
طالب علم کی فضیلت حدیث کی روشنی میں
’’کوئی شخص اُس علم میں سے جو کچھ چاہتا ہے اسے حاصل نہیں کر سکتا، جب تک کہ فقر اُسے متاثر نہ کرے اور جب تک وہ اپنی ہر ضرورت پر اس علم کو ترجیح نہ دے‘‘-
بوہریرہ رضی الله عنہ کی ایک حدیث ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”بیشک دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ کی یاد اور اس چیز کے جس کو اللہ پسند کرتا ہے، یا عالم ( علم والے ) اور متعلم ( علم سیکھنے والے ) کے“
(سنن الترمذي 2322)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز فجر میں سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے: «اللهم إني أسألك علما نافعا ورزقا طيبا وعملا متقبلا» اے اللہ! میں تجھ سے نفع بخش علم، پاکیزہ روزی اور مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں۔ (سنن ابن ماجة 925 وجود إسناده الألباني)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص میری اس مسجد میں صرف خیر ( علم دین ) سیکھنے یا سکھانے کے لیے آئے تو وہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کے درجہ میں ہے۔
(سنن ابن ماجة 227 وصححه الألباني)
بوامامہ باہلی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا، ان میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ایک عام آدمی پر ہے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آسمان اور زمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنی سوراخ میں اور مچھلیاں اس شخص کے لیے جو نیکی و بھلائی کی تعلیم دیتا ہے خیر و برکت کی دعائیں کرتی ہیں۔
(سنن الترمذي 2685 وحسنه الألباني لغيره)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو مجھ سے کوئی حدیث سنے پھر اسے یاد رکھ کر اسے دوسروں کو پہنچا دے، کیونکہ بہت سے احکام شرعیہ کا علم رکھنے والے اس علم کو اس تک پہنچا دیتے ہیں جو اس سے زیادہ ذی علم اور عقلمند ہوتے ہیں۔ اور بہت سے شریعت کا علم رکھنے والے علم تو رکھتے ہیں، لیکن فقیہہ (گہری سمجھ والے) نہیں ہوتے“
(سنن الترمذي 2656 وحسنه)
ابوکبشہ انماری رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”میں تین باتوں پر قسم کھاتا ہوں اور میں تم لوگوں سے ایک بات بیان کر رہا ہوں جسے یاد رکھو“، ”کسی بندے کے مال میں صدقہ دینے سے کوئی کمی نہیں آتی ( یہ پہلی بات ہے )
، اور کسی بندے پر کسی قسم کا ظلم ہو اور اس پر وہ صبر کرے تو اللہ اس کی عزت کو بڑھا دیتا ہے ( دوسری بات ہے ) ، اور اگر کوئی شخص سوال (لوگوں سے مانگنے) کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ اس کے لیے فقر و محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے“۔ ( یا اسی کے ہم معنی آپ نے کوئی اور کلمہ کہا ) ( یہ تیسری بات ہے )
اور تم لوگوں سے ایک اور بات بیان کر رہا ہوں اسے بھی اچھی طرح یاد رکھو: ”یہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے: ایک بندہ وہ ہے جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مال اور علم کی دولت دی، وہ اپنے رب سے اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں ڈرتا ہے
اور اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا بھی خیال رکھتا ہے ایسے بندے کا درجہ سب درجوں سے بہتر ہے۔ اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے علم دیا لیکن مال و دولت سے اسے محروم رکھا پھر بھی اس کی نیت سچی ہے
اور وہ کہتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں اس شخص کی طرح عمل کرتا لہٰذا اسے اس کی سچی نیت کی وجہ سے پہلے شخص کی طرح اجر برابر ملے گا، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا لیکن اسی علم سے محروم رکھا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیار کرتا ہے،
اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا ہے، نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ کے حق کا خیال رکھتا ہے تو ایسے شخص کا درجہ سب درجوں سے بدتر ہے، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت اور علم دونوں سے محروم رکھا، وہ کہتا ہے
کاش میرے پاس مال ہوتا تو فلاں کی طرح میں بھی عمل کرتا ( یعنی: برے کاموں میں مال خرچ کرتا ) تو اس کی نیت کا وبال اسے ملے گا اور دونوں کا عذاب اور بار گناہ برابر ہو گا“۔
(سنن الترمذي 2325 وصححه الألباني)
درود شریف کی فضیلت | جمعہ کے دن درود شریف کی فضیلت
دودھ پینے کی دعا بمعہ ترجمہ اور دودھ پینے کا سنت طریقہ
عقیقہ کی دعا | لڑکے یا لڑکی کی عقیقہ کرنے کا طریقہ
Conclusion [ علم کی فضیلت ختم کلام]
علم کی فضیلت کا ختم کلام یہ ہے کہ علم انسان کی روشنی کا سراج ہے۔ یہ انسان کو جہاں تک فہم کی روشنی پہنچاتا ہے، وہ وہاں ترقی کرتا ہے۔ علم انسان کو صحیح راہ دکھاتا ہے، اور اس کے ذریعے وہ خود اور دوسروں کی مدد کرتا ہے۔ علم کی فضیلت انسان کو عقلمند بناتی ہے اور اس کی شخصیت میں نیکی اور اخلاقیت کی روشنی چمکاتی ہے۔ اختتاماً، علم کا حاصل کرنا اور علم کی فضیلت کا استفادہ کرنا، انسان کی ترقی اور انسانیت کی خدمت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
1 thought on “علم کی فضیلت | طالب علم کی فضیلت حدیث کی روشنی میں”