دو سجدوں کے درمیان کی دعا ایک خاص عبادتی لمحہ ہے جو نماز کی رکنوں میں واجب اور مستحب سجدہ کے درمیان آتا ہے۔ اس لمحہ میں مسلمان خدا کی بندگی میں خود کو فراموش کرکے اپنے رب کے سامنے ہاتھ اُٹھاتے ہیں اور اپنی دل کی باتوں، آرزووں اور دعاؤں کو اُس کے سامنے رکھتے ہیں۔
یہ وقت مخصوص طور پر خدا سے گہرائی سے تعلق بنانے، مغفرت اور گیاہ بنانے کا وقت ہے۔ دو سجدوں کے درمیان کی دعا ایک بنیادی عبادت کا حصہ ہے جو مسلمانوں کو اُن کے خدا سے محبت اور تواضع کے ساتھ ربطہ بنانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
دو سجدوں کے درمیان کی دعا
حدیث مبارکہ میں دو سجدوں کے درمیان کی دعا یہ ہے:
اللہم اغفرلي وارحمني واجبرني واہدني وارزقني۔
انفرادی فرض، سنت اور نفل پڑھنے والے نمازی کے لیے دونوں سجدوں کے درمیان اس دعا کا پڑھنا مستحب ہے، البتہ امام کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت یہ ہے کہ امام ہلکی پھلکی نماز پڑھائے، کیونکہ جماعت کی نماز میں مریض اور کمزور لوگ ہوتے ہیں، اس کا لحاظ کرنا چاہیئے، تاکہ مقتدیوں کو زحمت، مشقت اور تکلیف نہ ہو۔
دونوں سجدوں کے درمیان اللہم اغفر لی پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: ما بین سجدتین نوافل میں اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَارْحَمْنِیْ واعْفِنِیْ واھْدِنِیْ وارْزُقْنِیْ پڑھنا مسنون ہے اور حدیث ابوداؤد جس میں یہ دعا وارد ہے ہے عند الحنفیہ نوافل پر محمول ہے اور فرائض میں اگر منفرد ہو یا مقتدی تھوڑے ہوں اور معلوم ہو کہ ان پر گراں نہ ہوگا تو اس کے پڑھنے میں حرج نہیں
بلکہ پڑھنا مستحب مندوب ہے کیوں کہ ائمۂ حنفیہ نے اس کی کہیں ممانعت نہیں فرمائی اور حنبلیہ کے نزدیک اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ کہنا واجب ہے اور اس کے بغیر نماز ہی باطل ہے اور علماء تصریح فرماتے ہیں کہ اگر اپنے مذہب سے خلاف کرنا لازم نہ ہو تو رعایت اختلاف مستحب ہے یعنی اس طرح عمل کرے کہ دوسرے کے نزدیک باطل نہ قرار پائے۔
دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا
دو سجدوں کے درمیان کی دعا اطمینان سے بیٹھنا نماز کے واجب ارکان میں سے ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے غلط طریقے سے نماز پڑھنے والے شخص کو اس طرح بیٹھنے کا حکم دیا تھا۔
جیسے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں داخل ہوئے تو اسی وقت ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کیا،
آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ: (واپس جا اور نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی) وہ لوٹ گیا اور اس نے نماز پڑھی جیسے اس نے پہلے پڑھی تھی، پھر آیا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کیا،
آپ نے فرمایا کہ (واپس جا اور نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی) اسی طرح تین مرتبہ ہوا ، تب وہ بولا کہ اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے
میں اس سے بہتر ادا نہیں کر سکتا۔ لہٰذا آپ مجھے نماز سکھا دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، اس کے بعد جو قرآن تم کو یاد ہو اس میں سے پڑھو، پھر رکوع کرو،
یہاں تک کہ رکوع میں اطمینان ہو جائے، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ میں اطمینان ہو جائے، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور اپنی پوری نماز میں اسی طرح کرو) ” بخاری: (757) مسلم: (397)
تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو دو سجدوں کے درمیان کی دعا بیٹھنے اور بیٹھ کر اطمینان کرنے کا حکم دیا ہے۔
اسی طرح رفاعہ بن رافع کہتے ہیں کہ “ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا”۔۔۔ پھر سابقہ حدیث کی طرح واقعہ بیان کیا اور اس میں آگے چل کر انہوں نے بتلایا کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ۔۔۔ پھر وہ [نمازی]اللہ اکبر کہے، اور اپنا سر اٹھائے یہاں تک کہ وہ بالکل سیدھا بیٹھ جائے،
پھر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کرے یہاں تک کہ اس کے سارے جوڑ اطمینان پا لیں، وہ پھر اپنا سر اٹھائے اور اللہ اکبر کہے، اگر نمازی یہ کر لے تو اس کی نماز مکمل ہو گئی) اس حدیث کو ابو داود: (857) اور نسائی: (1136) نے روایت کیا ہے، نیز اسے البانی رحمہ اللہ نے “صحیح سنن ابو داود ” (857) میں صحیح قرار دیا ہے۔
دو سجدوں کے درمیان خاموش رہنا
اگر کوئی شخص نفل نماز یا تنہا فرض نماز پڑھ رہا ہو یاامام جماعت کے ساتھ نماز پڑھا رہاہو ،مقتدیوں کی تعداد کم ہو اور ان پر بوجھ نہ ہوتاہو تو دونوں سجدوں اور قومہ میں احادیث سے ثابت دعائیں پڑھنا جائز ہے۔
لیکن اگر فرض نماز جماعت کے ساتھ ہو، مقتدی زیادہ تعداد میں ہوں اور سجدہ یا قومہ لمبا کرنا ان پر بھاری گزرنے کا غالب گمان ہو تو ایسی صورت میں قومہ اور جلسہ میں دعا نہ پڑھے۔
“الجامع الصغیر ” میں ہے کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے پوچھا : آدمی جب فرض نماز میں رکوع سے سر اٹھائے تو کیا پڑھے ؟ ، انہوں نے جواب دیا کہ : ربنا لك الحمدکہے اور خاموش رہے، اسی طرح دونوں سجدوں کے درمیان خاموش رہے۔
امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف رحمہمااللہ کا یہ سوال و جواب فرض نماز کے جلسے میں دعا پڑھنے نہ پڑھنے کے بارے میں تھا، مطلقاً نماز کے بارے میں نہیں۔ملاحظہ کیجیے:
Conclusion
دو سجدوں کے درمیان کی دعا کے ذریعے مسلمان اپنی نماز کی حالت میں خدا کے سامنے اپنے دل کی باتوں، توبہ، شکر، گیاہ، اور اپنے ارادے کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ ایک مخصوص لمحہ ہوتا ہے جب ان کی اختیاری یا واجب نمازوں میں سجدہ سہو واقع ہوتا ہے۔
اس دعا کے ذریعے وہ اپنے خدا کے ساتھ تعلق کو مزید مضبوطی سے بناتے ہیں اور اپنی عبادت میں تواضع اور محبت کی بھرمار کو بڑھاتے ہیں۔ اس طرح، دو سجدوں کے درمیان کی دعا مسلمانوں کے لئے ایک اہم عبادتی عمل ہے جو ان کے رب کے ساتھ مواصلت کو مزید قوی بناتا ہے۔